آج دنیا بھر میں جانوروں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بدلتے موسموں کے باعث انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں اور دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوسکتی ہے۔
جانوروں کا دن منانے کا مقصد جانوروں سے محبت کا برتاؤ رکھنے اور ان کا خیال رکھنے کے متعلق آگاہی و شعور پیدا کرنا ہے۔ جانوروں کی کھالوں اور دیگر اعضا کے انسانوں کے لیے فائدہ مند ہونے کے باعث ان کے شکار کی وجہ سے مختلف جانور معدومی کے خطرے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق برطانیہ کی ہر 10 میں سے 1 جنگلی حیات کو معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ سنہ 1970 سے برطانیہ کی خطرے کا شکار جنگلی حیات کا بھی ایک تہائی خاتمہ ہوچکا ہے۔
ادھر افریقہ میں ہاتھی دانت کی تجارت عروج پر ہے جس کے باعث ہاتھیوں اور گینڈوں کی نسل کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقہ میں ہر سال ہاتھی دانت کے حصول کے لیے 30 ہزار ہاتھی مار دیے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہاتھی اور افریقی گینڈے کے جسمانی اعضا کی تجارت ان کی نسل کو مکمل طور پر ختم کر سکتی ہے۔
ایشیائی ممالک میں غیر قانونی فارمنگ کے باعث چیتوں کی آبادی میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے 100 سالوں میں چیتوں کی آبادی میں 97 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ اس سے قبل دنیا بھر میں تقریباً 1 لاکھ کے قریب چیتے موجود تھے جو اب گھٹ کر 4 ہزار سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ چیتوں کی کئی اقسام پہلے ہی معدوم ہوچکی ہیں۔
جانوروں کی بقا کو سب سے بڑا خطرہ بدلتے موسموں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ سے بھی ہے۔ قطب شمالی کے درجہ حرات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس سے برفانی ریچھ اور پینگوئن کی نسل کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
تاہم مختلف حکومتوں اور اداروں نے خطرے کا شکار جنگلی حیات کے لیے حفاظتی اقدامات بھی اٹھائے ہیں جن کے باعث کئی جانور معدومی کے خطرے سے باہر نکل آئے۔
عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق چینی حکومت نے پانڈا کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں اور رہنے کے جنگلات میں اضافہ کیا اور غیر معمولی کوششیں کی جس کے باعث پانڈا کی آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور وہ معدومی کے خطرے سے باہر نکل آیا۔
گزشتہ عشرے میں پانڈا کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد اب ان کی تعداد 2000 ہوگئی ہے۔
امریکا میں بھی کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم کو، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، اگلے عشرے تک معدومی کا 50 فیصد خطرہ لاحق تھا اور اسے خطرے سے دو چار نسل کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔
تاہم ماہرین کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور حفاظتی منصوبوں کے باعث چند سال میں اس لومڑی کی نسل میں تیزی سے اضافہ ہوا جو اب بھی جاری ہے۔
چند روز قبل جانوروں کی تجارت کے خلاف ہونے والی عالمی کانفرنس میں دنیا کے سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر شکار کیے جانے والے ممالیہ پینگولین کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پینگولین افریقہ اور ایشیا کے گرم حصوں میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسمگلنگ کی وجہ سے گذشتہ عشرے میں 10 لاکھ سے زائد پینگولین موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔
First ever @CITES Resolution and full set of Decisions on demand reduction to tackle #WildlifeTrafficking agreed in #CoP17 Committee pic.twitter.com/TyFQEUro7a
— CITES (@CITES) September 29, 2016
پاکستان میں بھی معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کے تحفظ کے لیے حفاظتی اقدامات جاری ہیں اور حال ہی میں وزیر اعظم گرین پاکستان پروگرام کے تحت جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے۔