رپورٹ: نعمان ناصر
کراچی: قومی شناختی کارڈ کا حصول شہریوں کے لیے مشکل تر بنادیا گیا ہے اور شناختی کارڈ کے حصول کے لیے شہریوں نے راتیں سڑکوں پر گزارنا شروع کردیں کیوں کہ شناختی کارڈ کے حصول کے لیے نادرا آفس کے باہر قطاریں رات ہی سے لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔
نادرا آفس کے باہر قطاروں کو دیکھ کر آج سے 25 یا 30 سال قبل 80ء کی دہائی میں پی ٹی وی پر ایک مزاحیہ ڈرامے ففٹی ففٹی کی وہ قسط یاد آجاتی ہے جس میں معروف کامیڈین اسماعیل تارا اور ماجد جہانگیر نے ایسے مناظر کی درست مگر مزاحیہ انداز میں عکاسی کی تھی۔
ففٹی ففٹی کی کئی دہائیوں پرانی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کسی طرح شناختی کارڈ آفس کے باہر شہریوں کا ہجوم ہے جو کام کاج چھوڑ کر دن رات وہاں گزار رہے ہیں، مزاح نگاروں نے اس مسئلے کو مزاحیہ انداز میں اجاگر کیا لیکن آج 20 برس بعد بھی نادرا دفاتر کے سامنے ایسا ہی ہجوم ہے جیسا کہ ففٹی ففٹی نے بیس برس قبل پیش کیا (دیکھیں ویڈیو)
قومی شناختی کارڈ کا حصول ہر شہری کی پہچان کا باعث ہوتا ہے اور اس کا بآسانی اور فوری حصول ہر شہری کا بنیادی حق ہے مگر پاکستان میں 30 برس سے شہری اسی طرح قطاروں دھکے کھانے کے باوجود اس بنیادی حق سے محروم ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ دنیا ترقی کی منازل طے کرتے بہت آگے نکل گئی اور ہم اب تک ان بے لگام اور بے ہنگم قطاروں سے جان نہیں چھڑا سکے جہاں نظم و ضبط کا فقدان اور بے ضابطگی اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح شہریوں کو سہولت کی فراہمی کے لیے حکومت نے کچھ ماہ قبل پاسپورٹ آن لائن سسٹم متعارف کرایا تھا اسی طرح نادرا میں بھی آن لائن سسٹم متعارف کرایا جانا چاہیے تاکہ شہریوں کو یہ سہولت گھر میں ہی میسر آسکے اور قطاروں میں دھکے کھانے سے بچ جائیں۔
شناختی کارڈ کی اہمیت اور اس کے حصول میں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ چند روز قبل ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما عامر خان کی سینٹرل جیل میں جیب کٹ گئی تو انہوں نے کہا کہ چور پیسے رکھ لے برائے مہربانی شناختی کارڈ واپس کردے۔
ذرائع کے مطابق چند روز سے اورنگی ٹائون اور کورنگی ٹائون کے شہری قومی شناختی کارڈ کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور اپنی راتیں نادرا آفسز کے باہر کالی کرنے پر مجبور ہیں یہاں تک کہ رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ بھی نادرا آفس کے باہر ہی ہوتا ہے۔
ڈیلی ویجز اور نجی دفاتر کے ملازمین کے لیے نادرا آفس جا کے شناختی کارڈ بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اپنے روز گار اور دفتر سے چھٹی لے کر آنے والے ملازمین کی چھٹی لمبی لمبی قطاروں کی نذر ہو جاتی ہے اور دوسرے دن پھر وہی نادرا آفس، وہی دھکے اور وہی خواری حصے میں آتی ہے۔
دوسری جانب اگر شناختی کارڈ کہیں گم ہوجائے یا گر جائے تو شناختی کارڈ کا دوبارہ حصول پہلی بار کارڈ بنوانے سے زیادہ پریشان کن اور دشوار گزار مسئلہ بن جاتا ہے،پہلے تھانے کے چکر ، پھر دو اخبارات میں اشتہار اور پھر نادرا افسر کی تسلی کراتے کراتے شہری ادھ موا ہو جاتا ہے جب کہ کارڈ کے حصول کے لیے ایک ماہ کا طویل انتظار بھی جھیلنا پڑتا ہے، ارجنٹ فیس ادا کرنے کے باوجود کارڈ ارجنٹ تو کیا نارمل فیس کی مدت میں بھی نہیں مل پاتا۔
اوورسیز پاکستانی بھی جب پردیس سے چھٹیاں گزارنے اپنے ملک آتے ہیں اور اوورسیز کارڈ کی مدت ختم ہونے والی ہوتی ہے تو وہ نادرا کے آفس کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے ہیں اور پھر ہمت ہار کر بیرون ملک جاکر ہی اپنا اوورسیز کارڈ تجدید کراتے ہیں۔
گزشتہ روز نادرا آفس کے باہر کھڑے ایک شہری سے گفتگو کی تو اس کا کہنا تھا کہ میں روز کمانے والا شہری ہوں اور آج مزدوری پر جانا تھا مگر شناختی کارڈ کی مدت ختم ہونے کے بعد نادرا آفس کے باہر کھڑا ہوں مگر یہاں آکر دیکھا تو اتنی طویل قطار بنی ہوئی ہے قطار میں نہیں لگنا تو نادرا آفس کے باہر ایجنٹ کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے ان کی جیبیں گرم کرنا پڑتی ہیں۔